
بلوچستان کے گاؤں چوکی جمالی کے غریب کسان اور مزدور بیٹیاں بیچنے پر مجبور ہوگیا، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ سامنے آگئی۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ہوئی تباہی نے غریبوں کو سود خوروں کا محتاج بنا دیا، ایک مزدور بیوی کے آپریشن اور دواؤں کے خرچے کی وجہ سے سود خور کے قرض کے بوجھ تلے دب گیا۔
قرض واپس نہ کرسکا تو 10 سال کی بیٹی کو 40 سال کے شخص کے ہاتھوں بیچ دیا۔ ایک اور شخص نے 11 سال کی بچی کو 60 سال کے شخص کو فروخت کردیا۔
پروینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) حکام نے انکشاف کیا ہے کہ سیلاب کے بعد کم عمر بچیوں کو بیچ کر شادیاں کرنے کے واقعات 13 فیصد بڑھ گئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حکام ان واقعات کی روک تھام میں کیوں ناکام ہیں؟
بلوچستان کے کمیشن برائے خواتین کے مطابق بلوچستان میں نہ نکاح رجسٹریشن کا با ضابطہ نظام موجود ہے، نہ ہی صوبے میں کم عمر بچیوں کی شادی روکنے کا کوئی مؤثر قانون موجود ہے۔
بی بی سی نے ایک ایسے خاندان سے بات بھی کی، جو غربت کے باعث اپنی بیٹی بیچنے پر مجبور ہوا۔ اس نے پیسے لے کر کمسن بیٹی کی شادی بڑی عمر کے مرد سے کروادی۔